ممی کی ڈائری: بچے بڑے ہونے لگیں تو مائیں بھی بڑی ہو جاتی ہیں
بچے بڑے ہونے لگیں تو مائیں بھی بڑی ہو جاتی ہیں
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مدرہڈ آسان ہونے لگتی ہے
بلکہ بڑے ہوتے ہوتے تو یہ اور بھی مشکل ہونے لگتی ہے جب وہی گود میں ساری رات جھولا لینے والے بچے کہنے لگتے ہیں
Mama, you are toxic!
وہی جن کے نہلاتے دھلاتے شہزادے شہزادیاں بناتے مائیں سالہا سال منہ دھونا، نہانا کپڑے بدلنا تک بھول جاتی ہیں ان کو ایک دم ماں ان کی ساری بربادیوں کی ذمہ دار لگنے لگتی ہے۔
تیرہ چودہ پندرہ سالہ بربادیوں کی مجرم
اچھے دوست نہیں ملے تو ماں کا قصور
ماں جا کر ٹیچرز کے گلے پڑے تو اور بھی قصور وار
امتحانات سے ڈر لگتا ہے تو ماں ذمہ دار چاہے ماں سے زندگی میں کبھی نہ پڑھا ہو
ٹیچرز کو کچھ نہ کہو۔ ٹیچرز تو بہت پیار کرتے ہیں
ماں کتنی بڑی دشمن ہے کہ منہ ہاتھ دھونے کو کہتی ہے
گرم گرم کھانا بنا کر چاہتی ہے اب اسے کوئی جلدی سے کھا لے
یہ نہیں سمجھتی کہ بچوں کو کتنے ضروری کام ہے۔
دروازہ بجائے بغیر اندر گھسی چلی آتی ہے
ہمارے موبائلز میں جھانکنے کی کوشش کرتی ہے
ہماری اپنی تو کوئی پرائیویسی ہی نہیں ہے
یہ منحوس ماری ماں
کیوں ایسا کرتی ہے؟
بچے سو سو گز زبانیں چلانے لگتے ہیں مگر ماں ایک تھپڑ لگا کر ولن بن جاتی ہے
جس ماں نے سال سال بھر ان کی خاطر خود ڈھنگ سے سویا نہ ہو اسے ہر وقت یہ سننے کا ملنے لگتا ہے
آخر ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے؟
ہاں اب بچے ٹین ایجر بننے لگے ہیں اور ا