چودھری اور کمی کمین
جُرمِ ضعیفی کی معافی نہیں ہوتی۔
ہمارے ایک دوست ہوا بازی اور پی آئی اے کے وفاقی وزیر ہوا کرتے تھے، ایک مرتبہ وہ وزیرِ اعظم کے ہم راہ ایک متمول ریاست کے دورے سے لوٹے تو ’’کام یاب‘‘ دورے کی روداد سناتے ہوئے ان کا چہرہ متغیر ہونے لگا، کہنے لگے کہ ’’برادر‘‘ ملک میں ہماری باقاعدہ ’’عزت افزائی‘‘ کی گئی، ہم سے ایسا سلوک کیا گیا جیسا وڈیرا اپنے کمّی سے کرتا ہے، اور کمّی کمین بھی وہ جو پہلا ادھار واپس نہ کر سکا ہو اور منہ اٹھا کر نیا ادھار مانگنے چلا آئے۔ وزیر موصوف نے بتایا کہ قرض منظور ہونے کی شرائط طویل اور ہمارے قومی مفادات سے متصادم تھیں، پی آئی اے کس روٹ پر چلے گی کس روٹ پر نہیں چلے گی جیسی قدغنیں بھی فہرستِ شرائط میں شامل تھیں، مگر ہم مجبور تھے سو مانتے چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’برادر‘‘ ملک ہم سے مذاکرات نہیں کرتے، صرف احکامات جاری کرتے ہیں۔ اس توہین آمیز داستان کی جزیات سناتے ہوئے ہمارے دوست جنہیں قومی حمیت اور حب الوطنی کی ’’بیماری‘‘ ہے ایک سے زیادہ بار باقاعدہ تمتمانے لگے۔
حال ہی میں دنیا نے امریکی صدر کے اوول آفس کا ایک چشم کُشا منظر دیکھا ہے جس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی اور امریکی صدر کے درمیان ’’مذاکرات‘‘ ہو رہے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ تجسس رہا کہ جب ملکوں کے سربراہان ملتے ہیں اور ’’باہمی دلچسپی‘‘ کے امور پر گفتگو کرتے ہیں تو کیا ماحول ہوتا ہو گا، ایک دوسرے کو کن القابات سے بلاتے ہوں گے، گفتگو انگریزی میں کرتے ہوں گے یا مترجم کی مدد سے اپنی اپنی زبان میں، سنجیدہ رہتے ہوں گے یا جُگت بازی بھی چلتی ہو گی، دوستی ہو جائے تو ایک دوسرے کا موبائل نمبر بھی لیتے ہوں گے، اور اگر کسی بات پر تلخی ہو جائے تو منہ سُجا لیتے ہوں گے یا مسکرانے کی اداکاری جاری رہتی ہو گی۔ ٹرمپ زیلنسکی کی ویڈیو نے ہماری کئی خوش فہمیاں دور کر دیں، صدور کے درمیان مکالمے کی سطح تھڑے کی کج بحثی سے ایک سوتر بھی بلند نہ تھی، ٹرمپ تو ٹرمپ ہیں انکے نائب صدر بھی ان کے خلف الرشید ثابت ہوئے، یعنی ٹرمپ کے گنڈاپور، وہی انداز و اطوار وہی ’’باوقار‘‘ اندازِ گفتگو۔ امریکی نائب صدرجے ڈی وینس اگلے صدارتی انتخاب میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہوئے تو ہمیں حیرت نہیں ہو گی کیوں کہ خصائل و شمائل میں وہ ٹرمپ صاحب کا عکس محسوس ہوتے ہیں۔ خیر، ٹرمپ اور وینس، زیلنسکی کو مسلسل کوس رہے تھے کہ ہم نے تمھیں اربوں ڈالر دیے ہیں اور تم نے ہمارا شکریہ ادا نہیں کیا، یعنی تم غریب بھی ہو، کم زور بھی اور نا شکرے ہو۔ زیلنسکی کو اس ’’مہمان نوازی‘‘ کے بعد بغیر کھانا کھلائے وائٹ ہائوس سے رخصت کر دیا گیا۔ ویسے یہ بات درست ہے کہ زیلنسکی صاحب نے امریکا کا اُس طرح شکریہ ادا نہیں کیا جو کہ امریکا کا حق تھا۔ دس سال پہلے سی آئی اے نے یوکرین میں ایک رجیم چینج آپریشن کیا تھا جس کے بعد یوکرین کی تباہی کا آغاز ہوا، امریکا نے یوکرین کو روس کے خلاف جنگ لڑنے کی ہلہ شیری دی، یوکرین کو مغرب اور ’استعماری‘ روس کے درمیان دیوار قرار دیا، زیلنسکی کی آمریت کی بھرپور حمایت کی اور اسے جمہوری دنیا کا ہیرو قرار دیا، اس دوران لاکھوں یوکرینی ہلاک ہوئے اور یوکرین کے سینکڑوں مربع میل علاقے پر روس نے قبضہ کر لیا، اور پھر یک دم راتوں رات امریکا نے پالیسی تبدیل کر لی، زیلنسکی کو ’مسخرہ‘ قرار دے دیا گیا، یوکرین کی امداد بند کر دی گئی اوراسے جنگ بندی کا حکم دے دیا گیا۔ ان مہربانیوں پر یوکرینی صدرامریکا کا جتنا بھی شکریہ ادا کرے کم ہے۔