MakeUseOf

پھانسی، ڈنڈے اور تھپڑ کی ثقافت

Link copied to clipboard
Sign in to your MUO account

پھانسی، ڈنڈے اور تھپڑ کی ثقافت

2018 ءکا برس تھا۔ سیاسی بندوبست کی کیفیت محمد حسن عسکری کی اس بڑھیا جیسی تھی جس نے کہا تھا۔ ’ارے بھائی، پاکستان کیا ہے۔ بس مسلمانوں نے اپنے رہنے کے لیے کچا گھر بنا لیا ہے‘ ۔ یہ بڑھیا اگر جیتی رہتی تو دیکھ لیتی کہ اس کچے گھر کے بیچ دیوار اٹھا کردو مکان بنے۔ ہمارے حصے میں تو اتنی دیواریں اٹھیں کہ شمار کرنا تو شاید مشکل ہو، جسے تحقیق مطلوب ہو وہ جی ٹی روڈ پر دریائے سواں کے کنارے ’تخت پڑی جنگلات‘ کا نقشہ دیکھ لے۔ بس یہی پاکستان ہے۔ غربت، لاتعلقی، بے یقینی اور نا انصافی کے پھیلے ہوئے صحرا میں اہل حکم کے باغ نشاط اور روشن محلات کے نخلستان۔ ان دنوں شاہد خاقان کی کھپریل سے بنی حکومت ختم ہو رہی تھی۔ سینٹ کے انتخابات اور نگران حکومت کے لیے اینٹ پتھر ڈھوئے جا رہے تھے۔ اوصاف حمیدہ سے متصف ایک صاحب فیض صاحبان رسائی میں یوں ٹکٹ بانٹ رہے تھے جیسے غلام عباس کا ’جواری‘ تاش کے پتے پھینٹتا ہے۔

ایسے میں ایک روز خبر آئی کہ بڑے صاحب نے ملکی سیاست میں بھل صفائی کا ایک صدری نسخہ دریافت کیا ہے کہ ملک بھر میں چھ ہزار کے قریب بدعنوان، ملک دشمن، زبان دراز اور پیدائشی فتنہ پرور افراد کو چوراہوں میں پھانسی دے دی جائے۔ اس سے جولائی 18 ءکے موعودہ انتخابات میں نچلے درجے کی دھاندلی غیر ضروری ہو جائے گی نیز ’صادق اور امین‘ کی وزارت عظمیٰ کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی۔ سننے والے ہک دک رہ گئے۔ چھ ہزار شہری؟ الزام؟ تحقیق؟ تفتیش؟ سماعت؟ فیصلہ؟ اپیل؟ قانون، دستور سب بھاڑ میں گئے۔ یہ نسخہ بظاہر بھنگڑ خانے کی افواہ معلوم ہوتا تھا۔ ٹھیک ایک برس بعد 11 جون اور پھر 25 جون 2019 ءکو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے وفاقی وزیر فیصل واؤڈا نے فرمایا کہ ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے، بائیس کروڑ افراد کی قسمت بدلنے نیز قانون کی بالادستی کے لیے پانچ ہزار افراد کو پھانسی دینا ضروری ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس نیک اقدام کی راہ میں ملکی دستور بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ فیصل واؤڈا ہماری تاریخ میں راجہ غضنفر علی خان، ستار پیرزادہ، کالا باغ، رفیع رضا، سیف الرحمن اور بابر اعوان کے پائے کے مدبر شمار ہوتے ہیں۔ جس ایوان کی نشست پر پانچ ہزار پاکستانی شہریوں کو بلاتفریق دارورسن کی نوید سنا رہے تھے خود اس کرسی پر ان کا قیام دوہری شہریت کے تار عنکبوت سے بندھا تھا۔ ساڑھے تین برس بعد عذرداری کے فیصلے کا وقت آیا تو مستعفی ہو کر ایوان بالا میں جا بیٹھے۔ سینٹ کے غالباً واحد رکن ہیں جن کی جماعتی وابستگی نامعلوم ہے۔ پشتو میں اس کے لیے بہت برا لفظ ہے۔


Readers like you help support MakeUseOf. When you make a purchase using links on our site, we may earn an affiliate commission. Read More.