پنے صحافی بھتیجے کی مدح میں
گزشتہ چند ہفتوں سے ایک شور و غل سا مچا ہے کہ دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنی ہیں، نہیں نکالنی ہیں۔ اسی شور و غل کی وجہ سے ہر دو فریق کی بات سننا اور سمجھنا مشکل ہی تھا۔ سوشل میڈیا کے ایک محترم دوست اور قابل انجینئر جو پانی کے مسئلوں پر بڑی جامعیت سے لکھتے ہیں، سے بھی گزارش کی تھی کہ یہ کیا قصہ ہے ذرا سمجھائیں۔ مگر انہوں نے یہ گزارش درخورِ اعتنا نہ جانی۔ پھر ہم نے خود ہی یہ قصہ سمجھنے کے لیے کمر کسی اور فریقین کی رائے کو جاننا اور پڑھنا شروع کیا۔ اور جانتے ہیں پہاڑ کھودنے پر کیا نکلا؟ نتیجہ جاننے کے لیے آپ کو یہ تحریر آخر تک پڑھنی چاہیے۔
وفاقی حکومت نے گرین انیشی ایٹو پاکستان پروگرام کے تحت دریائے سندھ سے چھ نئی اسٹریٹجک نہریں نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس معاملے میں حکومت کا موقف ہے کہ اس سے ملک کے مختلف علاقوں جیسے کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی بنجر زمینوں کو پانی ملے گا خاص طور پر چولستان کینال کو لے کر حکومت بہت پرجوش نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نہر سے صحرائے چولستان کا 1.2 ملین ایکڑ ریگستانی علاقہ سیراب ہو گا اور اسے قابلِ کاشت زمین بنایا جا سکے گا۔ جس سے درآمد بڑھے گی اور ملک میں کثیر زرمبادلہ لایا جا سکے گا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے اگر یہ اتنا ہی اچھا منصوبہ ہے تو یہ بے وقوف سندھی کیوں خوامخواہ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ اور اس فلاحی منصوبے کے خلاف احتجاج کیوں کر رہے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جس چولستان کینال سے جنوبی پنجاب کا 12 لاکھ ایکڑ صحرائی علاقہ قابلِ کاشت بنایا جائے گا، اسی کینال کی وجہ سے سندھ کی 12 ملین ایکڑ زرخیز زمین بنجر ہو جائے گی۔ پنجاب کے صحرا کو سیراب کرنے کے لیے سندھ کے لہلہاتے میدانوں کی قربانی دی جائے گی۔ ان نہروں سے متاثر ہونے والے ایسے بھی علاقے ہیں جہاں دریائی پانی صرف کھیتی باڑی میں نہیں بلکہ پینے کے لیے بھی یہی پانی استعمال ہوتا ہے۔