ٹھنڈی چائے
شکاگو سے کراچی پہنچنے والی فلائٹ لیٹ تھی۔ صبح سات کے بجائے دس بجے بھائی کے گھر پہنچا۔ آج میری بھتیجی مہرین کی شادی تھی۔
ناشتے پر سب بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ ناشتہ ہوتے ہی گھر کے سب لوگ مختلف کاموں میں مصروف ہونے والے تھے،
میں نے بیگم صاحبہ کے دیے ہوئے تحائف بھابی کے حوالے کیے ، مہرین کو ڈائمنڈ سیٹ بہت پسند آیا۔ مختصر حال احوال دریافت کرنے کے بعد میں نے اجازت چاہی اور اوپر کی منزل پر چلا گیا جہاں گیسٹ روم ہمیشہ تیار ہوتا تھا۔ کچھ دیر آرام کرنا چاہا مگر نیند نہیں آئی۔ لیپ ٹاپ نکالا اور ای میلز چیک کرنے لگا۔
کھلے دروازے پر ہلکی سی دستک کے ساتھ ہی یہ آواز سنائی دی،
انکل جی۔ یہ لیں آپ کی گرما گرم چائے، دو ٹی بیگ، ڈبی کے دودھ اور آدھ چمچی چینی والی۔ اس نے چائے میز پر رکھ دی۔
اس کے لہجے کا فخریہ انداز شاید کسی شاباشی ملنے کا متقاضی تھا۔
میں نے شکریہ ادا کرنے کے ساتھ حیرانی سے پوچھا، ارے واہ، مگر تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں ایسی چائے پیتا ہوں؟
انکل جی میں کیسے بھول سکتی ہوں۔ مگر شاید آپ مجھے بھول گئے ہیں۔ آٹھ سال جو ہو گئے۔
آپ پچھلی باری آئے تھے تو میں ماں کے ساتھ یہاں کام کرنے آتی تھی۔ آپ نے مجھے کتابیں دلوائی تھیں اور اماں کو پیسے بھی دیے تھے مجھے واپس سکول بھیجنے کے لئے۔ کچھ یاد آیا؟
میں نے شرمندگی اور حیرانی کے ملے جلے لہجے میں کہا، ارے معاف کرنا میں شاید بوڑھا ہو گیا ہوں بھول جاتا ہوں، اچھا تو تم نذیراں کی بیٹی ہو؟
جی جی۔ بالکل وہ خوش ہو گئی کہ مجھے یاد آ گیا ہے۔
میں نے ذہن پر بہت زور دیا مگر اس کا نام یاد نہ آیا کچھ روزینہ یا زرینہ قسم کا نام تھا۔ تمہارا نام زرینہ ہے؟ میں نے اندازے سے پوچھا۔
اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور نفی میں سر ہلا دیا۔
انکل جی میرا نام روبینہ ہے۔ اس نے روبینہ پر زور دے کر کہا۔ ویسے نام میں کیا رکھا ہے روبینہ ہو یا زرینہ۔ سارا کھیل تو نصیبوں کا ہے۔ اب اس کا انداز فلسفیانہ ہو گیا تھا۔
اس کی بے باکی اور انداز میں کچھ تھا کہ بات آگے چل نکلی
نذیراں کہاں ہے؟ میں نے پوچھا۔
اماں تو بیمار رہتی ہے، اب اس کی جگہ میں ہی کام کرتی ہوں۔ اس کے لہجے کی کھنک ماند پڑ گئی تھی۔
کیا ہوا نذیراں کو؟ میں نے دریافت کیا۔
ڈاکٹر کہتے ہیں اس کے جوڑ جواب دے گئے ہیں۔ بس بڈھی بھی تو ہو گئی ہے۔ اس نے ڈاکٹروں کے رائے کے ساتھ اپنی تشخیص بھی بیان کر دی